toqeer toqeer Author
Title: ایک اَن پڑھ مگر هنر مند پاکستانی کی کہانی
Author: toqeer
Rating 5 of 5 Des:
Entertainment Magazine... ایک اَن پڑھ مگر هنر مند پاکستانی کی کہانی جس نے صرف اپنی محنت زهانت اور اپنی لگن سے اپنے کام میں کامیابی حاصل کر ک...
Entertainment Magazine...


ایک اَن پڑھ مگر هنر مند پاکستانی کی کہانی جس نے صرف اپنی محنت زهانت اور اپنی لگن سے اپنے کام میں کامیابی حاصل کر کے اپنی فیلڈ کا نامور اور کامیاب انسان بن گیا 

سلیم لاہور کا ایک معمولی سا الیکٹریشن تھا۔ یہ 1983-84 ء میں لاہور کی ایک کاٹن مل میں چھوٹا سا ملازم تھا اور وہاں سوئچ، فیوز لگاتا تھا۔یہ مل کا ایسا ملازم تھا جسے فورمین سے اوپر کوئی نہیں جانتا تھا۔ 

اس دور میں سٹینٹر مشین نئی نئی آئی تھی۔ یہ مشین رنگائی کے دوران کپڑے کی ’’ہیٹ سیٹنگ ‘‘کرتی تھی۔ اس مشین سے گزرنے کے بعد کپڑے کا رنگ نہیں اُڑتاتھا۔ سلیم جس فیکٹری میں کام کرتاتھا، اس کے مالک نے کوریا سے سٹینٹرمشین منگوائی۔ یہ مشین اس دور میں ایک کروڑ روپے میں آئی۔ یہ پاکستان میں اس نوعیت کی پہلی مشین تھی چنانچہ مالک کو اُسے لگانے اورچلانے کے لیے کوریا سے انجینئر بلانا پڑگئے۔ 

یہ بیس لوگوں کی ٹیم تھی جس کی آمدورفت،رہائش اور خوراک کے اخراجات مالک نے برداشت کیے۔ کوریائی انجینئروں کے لیے فائیو سٹار ہوٹل میں کمرے بک کیے گئے ۔ گاڑیوں،گائیڈ اور محافظوں کا بندوبست ہوا۔ مشروبات اور خوراک کا انتظام بھی کیا گیا۔ یہ لوگ دو ماہ تک پاکستان میں رہے۔ جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں سلیم کی داستانِ حیات لکھی ہے۔سلیم کورین انجینئروں کے ساتھ بطور مقامی کارکن شامل تھا۔ کوریا کا چیف انجینئر سلیم کو جہاں تار لگانے کا کہتا ، وہ لگا دیتا۔ جس جگہ سوئچ، فیوزلگانے اور جس پرزے کو جتنی وولٹیج کا کرنٹ دینے کا کہتا، یہ اُس کو اُتنا کرنٹ دے دیتا تھا۔

سلیم اُس وقت ایک کوارٹر میں رہتا تھا۔ اُس نے مختلف رنگ کے چاک خرید لیے۔ وہ سارا دن کوریائی انجینئروں کو مشین فٹ کرتے دیکھتا،رات کو اپنے کمرے کی بڑی دیوارپر مختلف رنگوں کے چاک سے اس مشین کا ماڈل بناتا رہتا۔ وہ دیوارپریہ نقش کردیتا کہ یہ لوگ کس رنگ اور کس گیج کی تار کس مشین سے نکال کر کس مشین میں لا رہے ہیں۔ مشین کے بوائلر کا سائز کیا ہے کون سا پائپ کس جگہ فٹ کیا گیا کس قسم کا نٹ یا بولٹ کس جگہ لگایا گیا اور کون سا پرزہ کس جگہ فٹ کیا گیا ۔وہ ایک دن نقشہ بناتا اور اگلے دن مشین کا دوبارہ معائنہ کرتا۔اُسے اپنے نقشے میں جو کمی یا کوتاہی نظر آتی، گھر جا کر اسے ٹھیک کر لیتا۔ دوماہ بعدجب مشین نے پیداوار شروع کی تواِس کا پورا ڈایا گرام سلیم کے کمرے کی دیوار پرثبت ہوچکا تھا۔ سلیم نے سٹیٹنر مشین لگانے کا سارا عمل سیکھ لیا تھا۔کوریائی انجینئر مشین لگا کر واپس چلے گئے ۔یہ مشین پاکستان کی کاٹن انڈسٹری میں انقلاب لے آئی۔ اس نے کپڑے کی پیداوار بھی بڑھا دی اور معیار بھی بہتر بنایا۔ 

یوں فیکٹری کے کاروبارمیں اضافہ ہوگیا۔ لہٰذا مالک نے دوسری مشین کا آرڈر دے دیا۔ سلیم کو اس آرڈر کا علم ہوا تو یہ فیکٹری کے مالک کے پاس گیا اور اس سے عرض کیا:’’ حاجی صاحب آپ نے کوریا کے انجینئروں کو مشین لگانے کے کتنے پیسے دیے تھے؟ ‘‘ حاجی صاحب نے اسے بتایا’’ وہ انجینئر ہمیں 25 لاکھ روپے میں پڑے تھے۔‘ ‘سلیم نے حاجی صاحب کو پیشکش کی ’’آپ مجھے صرف 5 لاکھ روپے دیں، میں آپ کو یہ مشین فٹ کر دوں گا۔ حاجی صاحب کے لیے یہ پیشکش حیران کن تھی کیونکہ یہ ایک جدید ترین ٹیکنالوجی تھی اور پورے ملک میں اسے سمجھنے والا کوئی شخص موجود نہیں تھا۔حاجی صاحب کے نزدیک سلیم ایک اَن پڑھ اور سادہ سا الیکٹریشن تھا جس کا علم تین تاروں کے بعد ختم ہو جاتا تھا۔ اُنہوں نے اسے طنزیہ نظروں سے دیکھا اورک ہا’’ اور اگر تم نہ کرسکے تو…!‘‘ سلیم نے سینے پر ہاتھ باندھ کر جواب دیا’’ آپ مجھے اسی فیکٹری میں پھانسی دے دیجئے گا۔‘‘ حاجی صاحب نے سلیم کو موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کی دو وجوہ تھیں۔ پہلی وجہ 20 لاکھ روپے کا فائدہ تھا۔ سلیم 25 لاکھ کا کام پانچ لاکھ روپے میں کررہا تھا۔ دوسرے اگریہ تجربہ کامیاب ہو جاتا تو فیکٹری کوریا کے انجینئروں کی محتاجی سے نکل جاتی۔ حاجی صاحب نے سلیم کی پیشکش قبول کرلی۔ 

حاجی صاحب کی مشین کوریا سے پاکستان پہنچی تو انہوں نے سلیم کو کام کرنے کی اجازت دے دی۔ سلیم نے دیوار پر بنائے ڈایاگرام کے مطابق مشین جوڑ ڈالی۔ اس مشین نے نہ صرف کام شروع کردیا بلکہ پہلی کے مقابلے میں زیادہ پیداوار دینے لگی۔ یوں تین ہزار روپے ماہانہ کمانے والا معمولی الیکٹریشن ایک ماہ میں 5 لاکھ روپے کا مالک بن گیا۔ یہ سلیم کی کامیابی کا آغاز تھا۔ 

اس کے بعد پورے ملک میں تمام سٹینٹر سلیم نے لگائے۔ اِس کا ایک پائوں کراچی ہوتا، دوسرا لاہور، تیسرا فیصل آباد اور چوتھا پشاور اور وہ ہر کاٹن مل کی ضرورت بن گیا۔سلیم نے 1990 کی دہائی کے آغاز میں اپنا سٹینٹر بنایا۔ یہ غیرملکی سٹینٹر کے مقابلے میں سستا بھی تھا۔ اس کے فاضل پرزہ جات بھی دستیاب تھے اور یہ مقامی مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق بھی تھا۔ ق

صہ مختصر وہ سلیم جو کبھی ہاتھ باندھ کر حاجی صاحب کے پاس گیا تھا، اب اُسی کو حاجی صاحب فون کرتے اور کہتے ’’ سلیم صاحب! میری مشین گڑبڑ کر رہی ہے۔ کیا آپ چکر لگا لیں گے؟‘ ا ورسلیم انہیں جواب دیتا’’ حاجی صاحب میں کراچی جا رہا ہوں تین دن بعد آپ کے پاس چکر لگائوں گا۔‘‘ اور حاجی صاحب اس کی منتیں کرنے پرمجبور ہو جاتے۔ یہ سلیم آج بھی لاہورمیں موجود ہے۔ کاٹن کے کاروبار سے وابستہ بیشتر لوگ اس کے نام اور کام، دونوں سے واقف ہیں۔

About Author

Advertisement

Post a Comment

 
Top